اتھ سیاسی انفکشن سے بھی نبردآزما ہے۔
بی جےپی حکومت کے کچھ ہی دن بچے ہیں ایسے میں اب وزیر اعلی کا کنٹرول بھی ڈھیلا پڑتا جارہا ہے۔ جس طرح سے دہلی۔لکھنو کے درمیان کھینچ تان کے اشارے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو دکھ رہا ہے وہ اگلے بحران کا اشارہ ہے۔ حکومت ناکام ہے اور وزیر اعلی غیر فعال ہیں۔پھر بھی دہلی کی دوڑ کسی لئے ہورہی ہے ریاست کی عوام سچائی سے واقف ہے۔
کورونا انفکشن کی تعداد اعداد میں بھلے ہی کم ہوگئی ہے لیکن ابھی بھی اسپتالوں میں اور گھروں میں انفکشن کم نہیں ہے۔ خود پی جی آئی کی سروے رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ 80فیصدی مریضوں کے سائنس پر فنگس حملہ کررہا ہے۔ فنگس کے مکمل علاج کی سہولیت ابھی بھی دستیاب نہیں ہے۔ کورونا انفکشن میں اب دوسری بیماریوں کے آچار بھی دکھائی پڑنے لگے ہیں۔مریض تڑپ رہے ہیں۔ ڈاکٹر اپنے انتظامی افسر چھینے جانے سے پریشان ہیں۔کنٹراکٹ پر تعینات پیرامیڈیکل اسٹاف شٹل بنے ہوئے ہیں۔
ماہرین بتا رہے ہیں کہ تیسری لہر بھی آنے والی ہے۔بچوں کے صحت کے سلسلے میں تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ٹیکہ کاری کی رفتار دھیمی ہے۔ ویکسین کی تقسیم کے سلسلے میں ریاستوں۔مرکز کے درمیان الزامات کا دور چل چکا ہے۔ریاست کو ہرایک کو مفت ٹیکہ لگانے کی مہم تو زور و شور سے کیا گیا ہے لیکن آن لائن ۔ آف لائن کے جھمیلے میں گاؤں والے پریشان ہیں۔ریاست کی آبادی کو دیکھتے ہوئے ٹیکہ کاری کی رفتار بڑھ سست ہے۔
بی جے پی اقتدار میں صرف سماج وادی حکومت کے وقت شروع کی گئی طبی خدمات کو برباد کیا گیا ہے۔ اور جب کورونا کی آفت آئی تو وہی سہولیات کام آئیں۔ لکھنو یں کینسر اسپتال،اودھ شلپ گرام کے علاوہ اس وقت بنے میڈیکل کالج اور ایمبولنس خدمات سے ہی بی جے پی حکومت کو کام چلانا